انڈیا کی ایک کمپنی کے سربراہ پر اس وقت کافی تنقید ہو رہی ہے جس کی وجہ ان کا بیان ہے جس میں انھوں نے بتایا ہے کہ انھوں نے اپنے کمپنی کے 90 فیصد کسٹمر سپورٹ عملے کو فارغ کر کے ان کی جگہ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ایک چیٹ بوٹ کو دے دیا ہے۔
یہ خبر اس وقت منظر عام پر آئی ہے جب لوگ پہلے ہی اس چیز کا خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ مصنوعی ذہانت، انسانوں کی نوکریاں چھین لے گی خاص طور پر خدمات کی صنعت میں۔
کمپنی کے سی ای او سُمت شاہ نے ٹوئٹر پر اس فیصلے پر بات کی اور اسے 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے پڑھا۔ انھوں نے کہا کہ عملے کو نوکری سے فارغ کرنا ایک ’مشکل‘ پر ’ضروری‘ فیصلہ تھا۔
سُمت شاہ نے کہا کہ معیشت کی صورتحال دیکھتے ہوئے سٹارٹ اپس ’منافعے‘ کو ترجیح دے رہے ہیں اور ہم بھی یہی کر رہے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ کسٹمر سپورٹ ہمیشہ سے ایک مسئلہ تھا اور میں اسے حل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ کیسے انھوں نے تھوڑے وقت میں اس چیٹ بوٹ اور اس کے پیچھے اسے چلانے والے مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارم کو بنایا تاکہ ان کے صارفین کے اپنے مصنوعی ذہانت والے اسسٹنٹ ہوں۔
انھوں نے کہا کہ چیٹ بوٹ ہر قسم کے سوالات کا جواب تیزی اور درستگی سے دے رہا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ’ایک ایسے دور میں جب فوری تسکین مل جاتی ہے، کاروبار شروع کرنا ایک خواب نہیں رہا۔‘
انھوں نے مزید لکھا ’ایک صحیح آئیڈیا اور ٹیم کے ساتھ کوئی بھی اپنے کاروباری خواب کو حقیقت میں بدل سکتا ہے۔‘
سُمت شاہ نے کہا ان کی کمپنی میں متعدد بھرتیاں ہو رہی ہیں۔
اس کے باوجود ان کی ٹویٹ پر کافی تنقید ہو رہی ہے لوگ ان پر ’بے ہس‘ فیصلے سے اپنے عملے کی زندگی خراب کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
ایک صارف نے لکھا ’توقع کے مطابق کہیں ان 90 فیصد عملے کا ذکر نہیں نظر آیا۔ ان کی کیا معاونت کی گئی؟‘
ایک اور صارف نے لکھا ’شاید یہ ٹھیک فیصلہ تھا لیکن اس پر جشن مناتے ہوئے یا اس کی مارکٹنگ کرتے ہوئے (ٹوئٹر) پر تھریڈ نہیں بنانا چاہیے تھا۔‘
سمت شاہ نے ایک ٹویٹ کے جواب میں کہا ’جیسے کہ توقع کی جا رہی تھی، کوئی ایک شخص دوسرے کے لیے خفا ہو گا۔‘
انھوں نے کہا کہ وہ لنکڈ اِن پر عملے کو دیے جانے والی معاونت کے بارے میں بتائیں گے کیونکہ ٹوئٹر پر لوگ ’ہمدردی نہیں منافع‘ کی تلاش میں ہوتے ہیں۔
گذشتہ برسوں میں چیٹ جی پی ٹی جیسے مصنوعی ذہانت کے آلات بڑھ گئی ہیں اور عام لوگوں کو بھی ان کی رسائی مل گئی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ کچھ ادارے کم لاگت کے ساتھ بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے ان آلات کا استعمال کر رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے لوگ ٹیکنالوجی کے ہاتھوں اپنی نوکریاں گنوانے سے پریشان ہیں۔
مارچ میں گولڈمین سیک کی طرف سے شائع کی گئی رپورٹ کے مطابق مستقبل میں مصنوعی ذہانت 30 کروڑ نوکریاں انسانوں سے لے سکتی ہے۔ انڈیا میں متعدد کمپنیاں پراڈکٹس بنانے کے لیے مصنوعی ذہانت پر سرمایہ لگا رہی ہیں جس کی وجہ سے نوکریوں کی کمی کے متعلق کافی پریشانیاں پائی جاتی ہیں۔