حال ہی میں شام اور کئی عرب ممالک کے درمیان تعلقات میں بہتری آنا شروع ہو گئی ہے جن میں سعودی عرب سے تعلقات میں بہتری کے لیے مذاکرات کو ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے جس کی بعض عرب حلقوں میں تعریف کی گئی ہے جبکہ کچھ میں اس پر تنقید بھی ہو رہی ہے۔
سنہ 2010 میں تیونس میں مہنگائی کے خلاف ایک شخص کی خود سوزی کے بعد عوامی مظاہروں کی ایک تحریک کا آغاز ہوا تھا جس نے جلد ہی عالمِ عرب کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ مظاہروں کے اس سلسلے کو میڈیا نے ’الربيع العربي‘ (عرب سپرنگ) کا نام دیا تھا۔ اُس وقت امید تھی کہ ان کے نتیجے میں عرب ممالک میں اصلاحات آئیں گی۔
تاہم جب ان مظاہروں کی لہر سنہ 2011 میں شام اور لیبیا پہنچی تو یہ جلد ہی پر تشدد ہو گئے اور انھوں نے ایک خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی۔ لیبیا آج تک غیر مستحکم ہے جبکہ شام میں صدر اسد کی حکومت کا تو خاتمہ نہ ہوا، لیکن پانچ اور چھ لاکھ کے قریب لوگ ہلاک ہوئے اور ایک کروڑ تیس لاکھ شامی بے گھر ہوئے۔
اس جنگ کے دوران شام کی عرب لیگ کی رکنیت معطل کر دی گئی تھی اور کئی عرب ممالک نے شام سے اپنے سفارتی تعلقات بھی ختم کردیے تھے۔ عرب ممالک کی شام مخالف پالیسیوں کو مغربی ممالک نے سراہا تھا۔ شام کی اسد مخالف تنظیموں نے بھی عرب ممالک کی تعریف کی تھی۔
تاہم حال ہی میں عالمِ عرب میں شام کی مخالفت کا زور دم توڑ رہا ہے۔ کئی عرب ممالک نے شام کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کا اعلان کردیا ہے یا وہ اس سلسلے میں شامی حکام سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ عالم عرب کی سب سے نمایاں طاقت، سعودی عرب نے بھی دو روز قبل شام کے حکام کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے جدہ میں مذاکرات کیے ہیں۔
طائرانہ نظر
شام کے وزیر خارجہ کے 12 اپریل کو سعودی عرب کے اہم دورے کے نتائج پر ملے جلے ردعمل سامنے آئے ہیں۔
شامی اپوزیشن کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں شامی صدر بشار الاسد مضبوط ہوں گے تاہم ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔
اپوزیشن کی ایک تنظیم نے کہا کہ اس دورے سے زیادہ تر ریاض کو فائدہ پہنچے گا جبکہ شامی سرکاری میڈیا نے اس دورے کو معیشت کے لیے اچھی پیش رفت کہا۔
مخالفت سے دوستی میں تبدیلی
12 اپریل کو بحیرہ احمر کے بندرگاہی شہر جدہ میں شام اور سعودی وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی تاریخی ملاقات کے نتائج پر شامی میڈیا اور شخصیات نے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’سانا‘ کی رپورٹ کے مطابق شام کے وزیر خارجہ فيصل المقدادکے دورہ مملکت کے اختتام پر جاری ہونے والے ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین نے دونوں ممالک کے درمیان قونصلر خدمات اور پروازوں کی بحالی کا خیرمقدم کیا ہے۔
اس میں مزید کہا گیا ہے کہ مقداد اور ان کے سعودی ہم منصب شہزادہ فیصل بن فرحان نے شام کے بحران کے ایک جامع سیاسی حل تک پہنچنے اور دمشق کے اپنے عرب ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے انسانی امداد کی شام کے تمام حصوں تک پہنچنے اور شامی پناہ گزینوں کی ان کے وطن واپسی کو یقینی بنانے کی کوششوں کی اہمیت پر بھی اتفاق بھی کیا اور دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا۔